Wednesday 13 June 2012

معاندین احمدیت خاص کرمجلس احرار کی طرف سے باربار الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے انگریز کی خوشامد

معاندین احمدیت خاص کرمجلس احرار کی طرف سے باربار الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے انگریز کی خوشامد

by Kashif Ali on Tuesday, June 12, 2012 at 5:01pm ·
معاندین احمدیت خاص کرمجلس احرار کی طرف سے باربار الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے انگریز کی خوشامد کی اور اس غرض سے تریاق القلوب ۔ کتاب البریہ ۔ نورالحق اور تبلیغ رسالت کے حوالجات پیش کئے جاتے ہیں ۔ ذیل کی سطور میں ان کے اس الزام کا کسی قدر تفصیل سے جواب عرض کیا گیا ہے ۔


1 نمبر
خوشامد کی تعریف 
افسوس ہے کہ معترضین حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر خوشامد کا الزام لگاتے وقت ایک ذرہ بھی خدا کا خوف نہیں کرتے کیونکہ اول تو آپ کی تحریرات کے اس حصہ پر جس میں انگریزی حکومت کے ماتحت مذہبی آزادی حکومت کی مذہبی امور میں غیر جانبدار ی اور قیام امن و انصاف کے لئے عادلانہ قوانین کے نفاذ کی تعریف کی گئی ہے ۔ لفظ ”خوشامد“ کا اطلاق نہیں ہو سکتا ظاہر ہے کہ بر محل سچی تعریف کو” خوشامد“ نہیں کہہ سکتے ۔ بلکہ” خوشامد“ جھوٹی تعریف کو کہتے ہیں ۔ جو کسی نفع کے حصول کی غرض سے کی جائے ۔ پس مرزا صاحب پر انگریز کی خوشامد کا الزام لگانے والوں پر لازم ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ آپ نے انگریز ی حکومت کے بارے میں جو تعریفی الفاظ استعمال فرمائے وہ حقیقت پر مبنی نہ تھے بلکہ خلاف واقعات تھے اوریہ کہ آپ نے انگریز سے فلاں نفع حاصل کیا ، لیکن ہم یہ بات پورے وثوق اور کامل تحدی سے کہہ سکتے ہیں اور مخالف سے مخالف بھی ضرور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو گا کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے دور میں مذہبی آزادی ، تبلیغ کی آزادی اور قیام امن و انصاف کی جو تعریف فرمائی ۔ وہ بالکل درست تھی ۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جو مذہبی آزادی انگریزی نظام کے ماتحت رعایا کو حاصل تھی ۔ اس کی مثال موجودہ زمانہ میں کسی اور حکومت میں پائی نہیں جاتی ۔


حضرت سید احمد بریلوی کے ارشادات
چنانچہ حضرت سید احمد بریلوی مجد د صدی سیز دہم ؒ نے بھی انگریزی حکومت کے اس قابل تعریف پہلو کی بے حد تعریف فرمائی ہے ۔
فرماتے ہیں :۔
۔ (۱) ”سرکار انگریزی کہ او مسلمان رعایائے خود را برائے ادائے فرض مذہبی شان آزادی بخشیدہ است‘‘۔
(سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری ص115)

۔ (۲) ”سرکار انگریزی مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کرتے اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی ہم پر زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے“۔
(سوانح احمدی ص45)

۔ (۳)۔”سید صاحب (حضرت سید احمد بریلوی)رحمة اللہ علیہ کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے‘‘۔
( سوانح احمدی ص139)

۔(۴) حضرت مولانا سید اسماعیل صاحب شہید رحمة اللہ علیہ انگریزی حکومت کے متعلق فرماتے ہیں:۔
۔”ایسی بے رو و ریاء اور غیر متعصب سرکار کے خلاف کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں‘‘۔
(سوانح احمدی ص57)
غرضیکہ ان ہر دو قابل فخر مجاہد ہستیوں نے بھی انگریزی حکومت کی بعینہ وہی تعریف کی جو حضرت بانیء سلسلہ احمدیہ نے کی بلکہ حضرت سید احمد بریلوی ؒ تو حکومت انگریزی کو” اپنی ہی عملداری“ سمجھتے تھے ۔ کیا احراری شعبدہ باز جوش خطابت میں ان بزرگان اسلام پر بھی” انگریزی حکومت کی خوشامد“ کا الزام لگائیں گے؟

پس یہ حقیقت ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کے حق میں جو کچھ لکھا وہ بطور خوشامد نہیں بلکہ بعینہ مبنی برصداقت تھا ۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:۔
۔(الف) ”بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب ”المنار“ نے بھی کیا ہے کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے۔ اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسیٰ بن مریم صلیب سے نجات پاکر اپنی طبعی موت سے بمقام سری نگر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا ۔نہ خدا کا بیٹا ۔ کیا انگریز مذہبی جوش رکھنے والے میرے اس فقرہ سے ناراض نہیں ہونگے ؟ پس سنو اے نادانو ! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار چلاتی ہے ۔ قرآ ن شریف کی رو سے مذہبی جنگ کرنا حرام ہے‘‘۔
(کشتی نوح حاشیہ ص68)

۔ (ب)۔” یہ گورنمنٹ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کی حمایت کرتی ہے اور ہر ایک ظالم کے حملہ سے ان کو بچاتی ہے …… میں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہو کرکیا ہے ۔ بلکہ یہ کام محض للہ اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق کیا ہے‘‘ ۔
(نور الحق حصہ اول ص29،30طبع اول)

۔ (ج)۔’’ بے شک جیسا کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذہب سمجھتا ہوں، لیکن اسلام کی سچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو درحقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون اور مال کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا ۔میں اس سے درخواست نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معزز عہدہ پر ہوجائے ‘‘۔
(اشتہار21اکتوبر1899ء )
(تبلیغ رسالت جلد 4ص49)

۔(د) ۔”میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ اپنی متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں ۔کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا“۔
 (تبلیغ رسالت جلد 7ص10)

۔ (ھ) ۔ میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں بلکہ میں انصاف اور ایمان کی رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کا شکریہ ادا کروں ‘‘۔
(تبلیغ رسالت جلد10ص123)



آپ یا آپ کی اولاد نے حکومت سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا 
ان تحریرات سے واضح ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریزکے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ کسی لالچ یا طمع یا خوف کے زیر اثر نہیں تھا اور یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کو واقعات کی تائید بھی حاصل ہے کیونکہ یہ امر واقعہ ہے اور کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی یہ نہیں کہہ سکتا حضرت مرزا صاحب یا حضور کے خلفاء میں سے کسی نے گورنمنٹ سے کوئی مربعہ یا جاگیر حاصل کی یا کوئی خطاب حاصل کیا بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت بانیء سلسلہ احمدیہ کے خلاف عیسائی پادریوں نے اور بعض اوقات حکومت کے بعض کارندوں نے بھی آپ اورآپ کی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا پس جب یہ ثابت ہے کہ حضور نے کوئی مادی فائدہ گورنمنٹ انگریزی سے حاصل نہیں کیا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کی غیرجانبداری اور امن پسندی اور مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی کے حق میں جو کچھ لکھا وہ مبنی بر حقیقت تھا تو پھر آ پ پر ”خوشامد“کا الزام لگانامحض تعصب اور تحکم نہیں تو اور کیا ہے؟

زور دار الفاظ میں تعریف کی وجہ
اس جگہ ایک سوال ہوسکتا ہے کہ گو یہ درست ہے کہ جو کچھ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے حق میں لکھا وہ خلاف واقعہ نہ تھا۔ لیکن پھر بھی حضرت مرزا صاحب کو اس قدر زور سے بار بار انگریز کی تعریف کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟آ پ خاموش بھی رہ سکتے تھے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وسوسہ صرف ان ہی لوگوں کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جن کو اس پس منظر کا علم نہیں جس میں وہ تحریرات لکھی گئیں۔

پس منظر
اس ضمن میں سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ 1857ء کے سانحہ کے حالات اور تفصیلات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے وہ زمانہ کس قدر ابتلاء اور مصائب کا زمانہ تھا وہ تحریک ہندووٴں کی اٹھائی ہوئی تھی لیکن اس کو جنگ آزادی کا نام دیا گیا اور یہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں ہندوستانی مسلمان بھی من حیث القوم پس پردہ شامل ہیں۔سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ اس لئے نئی حکومت کے دل میں متقدم حکومت کے ہم قوم لوگوں کے بارہ میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا اس پر1857ء کا حادثہ مستزاد تھا ۔دوسری طرف ہندو قوم تھی جو تعلیم و تربیت ۔صنعت و حرفت ۔سیاست و اقتصاد غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں مسلمانوں پر فوقیت رکھتے تھے مسلمانوں کا انہوں نے معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک تریں دور تھا ۔پنجاب میں انگریزی تسلط سے پہلے سکھ دور کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کی داستان حد درجہ المناک ہے ۔مسلمانوں کو اس زمانہ میں انتہائی صبر آزما حالات سے گذرنا پڑا انہیں جبراً ہندو یا سکھ بنا یاگیا۔ اذانیں حکمًاممنوع قرار دی گئیں مسلمان عورتوں کی عصمت دری مسلمانوں کا قتل اور ان کے سازوسامان کی لوٹ مار سکھوں کا روز مرہ کا مشغلہ تھا۔سکھوں کے انہی بے پناہ مظالم کے باعث مجدد صدی سیزدہم (تیرھویں 13) حضرت سیداحمد بریلوی رحمة اللہ علیہ کو ان کے خلاف علَم جہاد بلند کرنا پڑا۔
پس ایک طرف ہندو قوم کی ریشہ دوانیاں ۔مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ ۔مسلمانوں پر انکا علمی سیاسی اور اقتصادی تفوّق اور ان کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے اور اس کے ساتھ ساتھ سکھوں کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کے لرزہ خیز واقعات تھے ان حالات میں انگریزی دور حکومت شروع ہوا۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کی ابتداء اس اعلان سے کی کہ رعایا کے مذہبی معاملات میں نہ صرف حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت ہوگی ۔بلکہ دوسری قوموں کی طرف سے بھی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ ایسے قانون بنادئیے گئے جن کے نتیجہ میں رعایا کے باہمی تنازعات کا فیصلہ عدل وانصاف سے ہونے لگا۔ ہندووٴں اور سکھوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کے آگے حکومت حائل ہوگئی اور سکھوں کے جبر واستبداد سے بالخصوص پنجابی مسلمانوں کو اس طرح نجات مل گئی گویا کہ وہ ایک دہکتے ہوئے تنور سے یکدم باہر نکل آئے۔

قرآن مجید کی واضح ہدایت
ایک طرف دو مشرک قومیں( ہندو اورسکھ) مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھیں۔ تو دوسری طرف ایک عیسائی حکومت تھی جس کے ساتھ تعاون یا عدم تعاون کا فیصلہ مسلمانوں کو کرنا تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کی اس تعلیم پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ ”لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةًلِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَّذِیْنَ قَالُوْااِنَّا نَصَارٰی“(المائدة: 83)ترجمہ:۔ یقینا یقیناتو دیکھے گا کہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودی اور مشرک ہیں اور یقینا یقینا تو دیکھے گا کہ دوستی اور محبت کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسلمانوں کے قریب عیسائی کہلانے والے ہیں۔
اس واضح حکم میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ یہود یا ہنود اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف عیسائی ہوں تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوستی اور مودة کا ہاتھ عیسائیوں کی طرف بڑھائیں۔ چنانچہ عملاً یہی مسلمانوں نے کیا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ قرآنی تعلیم مشعل راہ نہ ہوتی تو پھر بھی مسلمانوں کا مفاد اسی میں تھا۔ اور یہی حالات کا اقتضاء تھا کہ ہندووٴں اور سکھوں کے مقابلہ میں انگریزوں کے ساتھ تعاون کرتے اور انگریزوں کی مذہبی رواداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندووٴں کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ رہ کر اپنی پر امن تبلیغ مساعی کے ذریعہ سے اپنی تعدادبڑھانے کی کوشش کرتے ۔ بعد کے حالات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انگریزی عملداری کے ابتداء میں مسلمانوں کی تعداد بر عظیم ہندو پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب تھی، لیکن انگریزوں کے انخلاء ( 1947ء) کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی ۔ گویا کہ تین صدیوں کی اسلامی حکومت کے دوران میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد تھی صرف ایک صدی سے بھی کم زمانے میں اس سے دس گناہ بڑھ گئی ۔ چنانچہ سر سید احمد خان صاحب علی گڑھی، مولانا شبلی نعمانی، نواب محسن الملک بہادر ،نواب صدیق حسن خاں صاحب اور دوسری عظیم الشان شخصیتوں نے دور اول میں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے دورآخر میں ہندو کی غلامی پر انگریز کیسا تھ تعاون کو ترجیح دی ۔ اور مندرجہ بالا قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں کی طرف دست تعاون بڑھایا۔ سر سید مرحوم نے انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے متعدد کتب ورسائل تصنیف کئے۔ مسلمانوں کی مغربی علوم میں ترقی کے لئے شبانہ روز کوششیں کیں جن کا نمونہ علیگڑھ یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے ۔ چنانچہ احمدیت کے ذلیل ترین معاند اخبار”زمیندار“لاہور کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا۔ کہ ان دنوں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ انگریز کی حمایت کی جاتی‘‘۔
( زمیندار ۵۲/ ۱۱/ ۲۷ ص3کالم5)

مہدی سوڈانی
پھر یہ بات بھی مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک 1879ءاور اس کے برطانوی حکومت کے ساتھ تصادم کے باعث انگریزی قوم کے دل و دماغ پر یہ چیز گہرے طور پر نقش ہو چکی تھی۔ کہ ہر مہدویت کے علمبردار کے لئے ضروری ہے کہ وہ تیغ و سناں کو ہاتھ میں لے کر غیر مسلموں کو قتل کرے۔


حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ مہدویت
یہی وہ دور تھا جس میں حضرت مرز صاحب نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے مامور ہو کر مسیح اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ۔قرآنی تعلیم کے پیش نظر آپ اگرچہ حکومت انگریزی کے ساتھ تعاون اور وفاداری کو ضروری سمجھتے تھے ،لیکن بد قسمتی سے دور انحطاط کے مسلمان علماء نے مہدی موعود کا یہ غلط تصور دنیا کے سامنے پیش کر رکھا تھا کہ وہ آتے ہی جنگ و پیکار کا علم بلند کر دیگا اور ہاتھ میں تلوار لے کر غیر مسلموں کو قتل کریگا اور بزور شمشیر اسلامی حکومت قائم کردیگا۔ اس لئے اور مہدی سوڈانی کا تازہ واقعہ اس کا ایک بین ثبوت تھا اس لئے جب آپ نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو ضروری تھا کہ انگریزی حکومت آپ اورآپ کی تحریک کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتی ، لیکن اس پر مستزاد یہ ہوا کہ مخالف علماء نے جہاں ایک طرف اولیاء امت کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ( کہ امام مہدی پر علمائے وقت کفر کا فتویٰ دیں گے) آپ ؑپر کفر کا فتویٰ لگا کر مسلمانوں میں آپ کے خلاف اشتعال پھیلایا۔ تو دوسری طرف حکومت انگریزی کو بھی یہ کہہ کر اکسایا کہ یہ شخص امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے۔ در پردہ حکومت کا دشمن ہے اور اندر اندر ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے۔ جو طاقت پکڑتے ہی انگریزی حکومت کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کر دیگی ۔پھر نہ صرف یہ کہ یہ جھوٹا پراپگنڈہ مخالف علماء کی طرف سے کیا گیا۔ بلکہ عیسائیوں پادریوں کی طرف سے بھی حکومت کے سامنے اور پریس میں بار بار یہ الزام لگایا گیا کہ یہ شخص مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا اراداہ یہ ہے کہ خفیہ طور پر ایک فوج تیار کر کے گورنمنٹ انگریزی کے خلاف مناسب موقع پر اعلان جنگ کر دے ۔ دراصل یہ شخص اور اس کی جماعت حکومت انگریزی کے”غدار“ ہیں۔ اور ان کا وجود انگریزی حکومت کے لئے سخت خطرناک ہے۔ چونکہ یہ الزامات محض بے بنیاد اور بے حقیقت تھے اس لئے حضرت مرزا صاحب کے لئے ضروری تھا کہ ان کی پر زور الفاظ میں تردید فرما کر حقیقت حال کو آشکار ا کرتے۔



تعریفی عبارتیں بطور”ذب“ تھیں نہ بطور”مدح“۔
پس تعریفی الفاظ بطور مدح نہ تھے بلکہ بطور” ذب“ یعنی بغرض رفع التباس تھے۔
۔ (۱)۔ اس کی مثال قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ قرآن مجید میں حضرت مریم ؑ کی عفت اور عصمت کی بار بار اور زور دار الفاظ میں تعریف بیان کی گئی ہے لیکن آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ اور حضور ﷺ کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنھا کی عفت اورعصمت کا قرآن کریم میں خصوصیت کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا۔ حالانکہ وہ اپنی عفت اور عصمت کے لحاظ سے حضرت مریم ؑ سے کسی رنگ میں بھی کم نہیں ہیں بلکہ حضرت فاطمة الزہرا ؓ اپنے مدارج عظمت کے لحاظ سے حضرت مریم ؑ سے افضل ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد”فَاطِمَةُ سَیَّدَةُ النِّسَاءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ‘‘۔
(بخاری کتاب المناقب باب مناقب قرابة رسول اللہ ﷺ و منقبة فاطمة جلد 2ص191)

۔ (۲) لیکن ظاہر ہے کہ حضرت مریم صدیقہ ؑ کی پاکیزگی اور عفت و عصمت کا قرآن کریم میں بار بار زور دار الفاظ میں ذکر ہونا اور ان کے مقابل پر حضرت فاطمة الزہرا اور آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کا قرآن مجید میں ذکر نہ ہونا ہر گز ہرگز اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت مریم کو ان پر کوئی فضیلت حاصل تھی ۔کیونکہ حضرت مریم پر زنا اوربدکاری کی تہمت لگی ۔اس لئے ان کی بریت اور رفع التباس کے لئے بطور ”ذب“ ان کی تعریف کی ضرورت تھی۔ مگر چونکہ حضرت فاطمة الزہراؓ اور آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ پر ایسا کوئی الزام نہ تھا۔ اس لئے باوجود ان کی عظمت شان کے ان کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہ تھی ۔ بعینہ اسی طرح چونکہ حضرت مرزا صاحب پر آپ کے مخالفین کی طرف سے آ پ علیہ السلام کے دعویٰ مہدویت کے باعث حکومت سے غداری اور اس کے خلاف تلوار کی لڑائی کی خفیہ تیاریوں کا الزام تھا۔ اس لئے ضروری تھا کہ اظہار حقیقت کے لئے زور دار الفاظ میں ان الزامات کی تردید کی جاتی ۔


احراریوں کی پیشکردہ عبارتوں پر تفصیلی بحث
سول اینڈ ملٹری گزٹ (جو انگریزی حکومت کا ایک مشہور آرگن تھا ) کی اشاعت ستمبر، اکتوبر1894ء میں ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں لکھا گیا کہ یہ ”شخص گورنمنٹ انگریزی کا بد خواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں رکھتا ہے۔“ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کا ذکر اپنے اشتہار 10دسمبر1894ء مطبوعہ تبلیغ رسالت جلد3ص192،193میں کر کے اس کی تردید فرمائی یہی وہ اشتہار ہے جس کی جوابی عبارتوں کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں ،لیکن بددیانتی سے اس اشتہارکی مندرجہ ذیل ابتدائی سطور کو حذف کر دیتے ہیں ۔
۔ ”سول ملٹری گزٹ کے پرچہ ستمبر یا اکتوبر1894ء میں میری نسبت ایک غلط اور خلاف واقعہ رائے شائع کی گئی جس کی غلطی گورنمنٹ پر کھولنا ضروری ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ صاحب راقم نے اپنی غلط فہمی یا کسی اہل غرض کے دھوکہ دینے سے ایسا اپنے دل میں میری نسبت سمجھ لیاہے کہ گورنمنٹ انگریزی کا بد خواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں رکھتا ہوں،لیکن یہ خیال ان کا سراسر باطل اور دور از انصاف ہے ‘‘۔………
۔”سکھوں کے زمانہ میں ہمارے دین اور دنیا دونوں پر مصیبتیں تھیں۔…… ان مصیبتوں سے اس گورنمنٹ کے عہد دولت نے ایک دم ہمیں چھوڑ ا دیا…… اور اگر ہم نے کسی کتاب میں عیسائی پادریوں کا نام دجال رکھا ہے یا اپنے تئیں مسیح موعود قرار دیا ہے تو اس کے وہ معنی مراد نہیں جو بعض ہمارے مخالف مسلمان سمجھتے ہیں ۔ ہم کسی ایسے دجال کے قائل نہیں جو اپنا کفر بڑھانے کے لئے خون ریزیاں کرے اور نہ کسی ایسے مسیح اور مہدی کے قائل ہیں جو تلوار کے ذریعہ سے دین کی ترقی کرے یہ اس زمانہ کے بعض کوتہ اندیش مسلمانوں کی غلطیاں ہیں جو کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کے منتظر ہیں اورچاہئے کہ گورنمنٹ ہماری کتابوں کو دیکھے کہ کس قدر ہم اس کے اعتقاد کے دشمن ہیں‘‘۔

۔ ”مجھے افسوس ہے کہ سول ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر کو ان واقعات کی کچھ اطلاع ہوتی تو وہ ایسی تحریر جو انصاف اور سچائی کے برخلاف ہے ہر گز شائع نہ کرتا ‘‘۔
(تبلیغ رسالت جلد3ص192تا199)

علاوہ ازیں شیخ محمد حسین بٹالوی نے کئی رسائل شائع کئے جن میں لکھا ہے کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا” باغی“ ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر حضرت مرزا صاحب نے مختلف کتب اور اشتہارات میں کیا ہے۔ چند عبارتیں ملاحظہ ہوں:۔
۔(۱) ”چونکہ شیخ محمد حسین بٹالوی اور دوسرے خود غرض مخالف واقعات صحیحہ کو چھپا کر عام لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ایسے ہی دھوکوں سے متاثر ہوکر بعض انگریزی اخبارات جن کو واقعات صحیحہ نہیں مل سکے ہماری نسبت اور ہماری جماعت کی نسبت بے بنیاد باتیں شائع کرتے ہیں سو ہم اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی محسن گورنمنٹ اور پبلک پر یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ہنگامہ اور فتنہ کے طریقوں سے بالکل متنفر ہیں‘‘۔
(اشتہار ۲۷ فروری ۱۸۹۵ء تبلیغ رسالت جلد۴ ص۱)

پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں:۔
۔ ”آپ نے جو میرے حق میں گورنمنٹ کے باغی ہونے کا لفظ استعمال کیا ہے یہ شاید اس لئے کیا ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ نالش اور استغاثہ کرنے کی میری عادت نہیں ورنہ آپ ایسے صریح جھوٹ سے ضرور بچتے‘‘۔
(تبلیغ رسالت ۴ ص ۴۵ )
( تبلیغ رسالت جلد ۳ ص ۹۲)


تریاق القلوب کی ۵۰ الماریوں والی عبارت 
اسی طرح احراری معترضین تریاق القلوب ص۱۵ کی عبارت بھی خوشامد کے الزام کی تائید میں پیش کیا کرتے ہیں ۔ اس میں” پچاس الماریوں“ کے الفاظ کو خاص طور پر پیش کرتے ہیں لیکن جو شخص اصل کتاب نکال کر اس میں سے یہ عبارتیں پڑھے گا اسے فی الفور معلوم ہوجائیگا کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے وہاں بھی انگریزی حکومت کی تائید میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ بطور” ذب“ کے ہے یعنی مخالفین کے الزام” بغاوت“ کی تردید میں لکھا ہے چنانچہ تریاق القلوب ص ۱۵کی وہ عبارت جسے احراری معترضین پیش کرتے ہیں اس سے پہلے یہ الفاظ ہیں:۔
۔ ”اور تم میں سے جو ملازمت پیشہ ہیں وہ اس کو شش میں ہیں کہ مجھے اس محسن سلطنت کا باغی ٹھہرا ئیں میں سنتا ہوں کہ ہمیشہ خلاف واقعہ خبریں میری نسبت پہنچانے کے لئے ہر طرح سے کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ میں باغیانہ طریق کا آدمی نہیں ہوں‘‘۔
(تریاق القلوب ص۱۵)
اس کے آگے وہ عبارت شروع ہوتی ہے جس کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں
نور الحق حصہ اول کی عبارت
احراری معترضین نور الحق حصہ اول کے ص۳۰ و ص۳۱کا حوالہ بھی اس الزام کی تائید میں پیش کرتے ہیں:۔لیکن جو شخص کتاب نور الحق کا ص۲۴پڑھیگا اس کو علم ہوجائے گا کہ یہ عبارتیں بھی پادری عماد الدین کی طرف سے عائد شدہ الزام بغاوت کے جواب میں لکھی گئیں۔چنانچہ حضور علیہ السلام ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔
۔ ”ایک شخص نے ایسے لوگوں میں سے جو اسلام سے نکل کر عیسائی ہوگئے ہیں یعنی ایک عیسائی جو اپنے تئیں پادری عماد الدین کے نام سے موسوم کرتا ہے ایک کتاب ان دنوں میں عوام کو دھوکہ دینے کے لئے تالیف کی ہے اور اس کا نام تورین الاقوال رکھا ہے اور اس میں ایک خالص افتراء کے طور پر میرے بعض حالات لکھے ہیں اوربیان کیا ہے کہ یہ شخص ایک مفسد آدمی اور گورنمنٹ کا دشمن ہے اور مجھے اس کے طریق چال چلن میں بغاوت کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسے ایسے کام کرے گا اور وہ مخالفوں میں سے ہے………اب ہم گورنمنٹ عالیہ کو ان باتوں کی اصل حقیقت سے مطلع کرتے ہیں جو ہم پر اس نے افتراء کیں اور گمان کیا کہ ہم دولت برطانیہ کے بد خواہ ہیں“۔
(نور الحق جلد۱ طبع اول ص۲۴،۲۵)

اس کے آگے وہ عبارتیں شروع ہوتی ہے جو احراری معترضین پیش کرتے ہیں۔ لیکن ص۳۰ طبع اول کی عبارت کو نقل کرنے میں یہ صریح تحریف اور بددیانتی کرتے ہیں کہ درمیان سے یہ عبارت حذف کر دیتے ہیں:۔
۔ ”اور میں نے یہ کام (گورنمنٹ سے تعاون کی تلقین) گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امیدوار ہوکرکیا ہے‘‘۔
(نور الحق جلد ۱ ص۳۰ طبع اول)

پس ظاہر ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ سب عبارتیں بھی دشمن کے جھوٹے الزام کی تردید میں ہیں نہ کہ بطور ”خوشامد“جیسا کہ احراری معترضین ظاہر کرتے ہیں۔


کتاب البریہ کی عبارت
اب ہم کتاب البریہ ص۳ کی عبارت کو لیتے ہیں جو احراری معترضین کی طرف سے بار بار پیش کی جاتی ہے وہ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:۔
۔ ”یہ بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اشارةً اور کہیں صراحتًا میری نسبت بیان کیا ہے کہ گویا میرا وجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے‘‘۔
(کتاب البریہ ص۳)
یاد رہے کہ پادری مارٹن کلارک ایک بہت بڑا عیسائی پادری تھا اور انگریز حکام اس کی عزت کرتے تھے اس نے حضرت بانی ء سلسلہ احمدیہ پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا استغاثہ دائر کیا تھا اس مقدمہ کے دوران میں اس نے بطور مستغیث عدالت میں جو بیان دیا اس میں یہ کہا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ انگریزی حکومت کے باغی ہیں اس کا وجود انگریزوں کے لئے خطرناک ہے۔


خود کا شتہ پودہ والی عبارت
آخری عبارت جو احراریوں کی طرف سے اس الزام کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اشتہار ۲۴فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ہفتم ص ۱۹ کی ہے یہ اشتہار تبلیغ رسالت ص۷ سے شروع ہو کر ص ۲۸ پر ختم ہو جاتا ہے ۔ اس اشتہار کے ص ۱۹ کے حوالہ سے احراری ”خودکاشتہ پودہ “کا لفظ اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں ۔ اس الزام کا مفصل جواب تو آگے آتا ہے لیکن ا س جگہ یہ بتانا مقصود ہے کہ معترضین اس عبارت کو بھی پیش کرتے وقت دیانت سے کام نہیں لیتے اور اپنی پیش کردہ عبارت سے اوپر کی مندرجہ ذیل عبارت حذف کر جاتے ہیں ۔
۔ ”مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امورگورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کاروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بد گمانی پیدا ہو “۔ ۔۔۔۔۔”اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں ‘‘۔
(تبلیغ رسالت جلد ہفتم ص ۱۹)
علاوہ ازیں اس اشتہار کے شروع ہی میں اس اشتہار کی اشاعت کی غرض ان الفاظ میں تحریر میں فرماتے ہیں:۔
۔ ”بسا اوقات ایسے نئے فرقے (جماعت احمدیہ ) کے دشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے۔ گورنمنٹ میں خلاف واقع خبریں پہنچاتے ہیں ۔ اور مفتریانہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے ا س لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بد ظنی کی طرف مائل ہوں ۔ لہذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں “۔
(تبلیغ رسالت جلد ہفتم ص ۸ سطر ۱)

غرضیکہ اس اشتہار کی اشاعت کے لئے بھی یہی ضرورت پیش آئی تھی کہ مخالفین نے گورنمنٹ کو بانی سلسلہ احمدیہ اور حضور علیہ السلام کی جماعت کے خلاف یہ کہہ کر بد ظن کرنا چاہا تھا کہ یہ لوگ گورنمنٹ کے باغی ہیں ۔
احراریوں کی پیش کردہ تمام عبارتوں کو ان کے محولہ میں اصل مقام سے نکال کر دیکھ لو ۔ ہر جگہ یہی ذکر ہو گا ۔ کہ چونکہ مخالفوں نے مجھ پر حکومت سے بغاوت کا جھوٹا الزام لگایا ہے ا س لئے میں ان کی تردید میں یہ لکھتا ہوں کہ یہ الزام محض جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور میں در حقیقت میں گورنمنٹ کاخیرخواہ ہوں ۔
پس حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے جس جس جگہ انگریزی حکومت کی تعریف کی ہے وہ تعریف بطور” مدح“ نہیں بلکہ بطور ”ذبّ“ کے ہے یعنی رفع التباس کے لئے ہے جس طرح قرآن مجید میں حضرت مریم کی عصمت اور پاکیزگی کا بالخصوص ذکر بطور مدح نہیں بلکہ بطور ”ذبّ“ کے ہے ۔


ہجرت حبشہ کی مثال
اس کی ایک اور واضح مثال تاریخ اسلام میں ہجرت حبشہ کی صورت میں موجود ہے ۔حبشہ میں عیسائی حکومت تھی مکہ میں مشرکوں کے مظالم میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا حضورﷺ نے مشرکوں کے استبداد پر عیسائی حکومت کو ترجیح دیتے ہوئے صحابہ کو اپنی بعثت کے پانچویں سال حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی ۔سیرت ابن ہشام میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے ۔
۔ ”جب رسول خدا نے اس شدت بلا کو ملاحظہ فرمایا جو ان کے اصحاب پر کفاروں کی طرف سے نازل ہوئی تھی اگرچہ خود حضور ﷺ بباعث حفاظت الہٰی اور آپ کے چچا ابو طالب کے سبب سے مشرکوں کی ایذاء رسانی سے محفوظ تھے ۔مگر ممکن نہ تھا کہ اپنے اصحاب کو بھی محفوظ رکھتے اس واسطے آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ملک حبش میں چلے جاؤ تو بہتر ہے ۔کیونکہ وہاں کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہ صدق اور راستی کی سرزمین ہے“ ۔
( سیرت ابن ہشام مترجم اردو مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس ۱۹۱۵ ء ص ۱۰۶ )
پس حضور ﷺ کے حکم کے مطابق مسلمان ایک مشرک نظام سے نکل کر ایک عیسائی حکومت کے سایہ میں جا کر آباد ہو گئے ۔ ظاہر ہے کہ وہاں حاکم ہو کر نہیں بلکہ محکوم ہو کر رہنے کے لئے گئے تھے اور فی الواقعہ محکوم ہو کر ہی رہے ۔
ان مہاجرین میں علاوہ بہت سے دیگر صحابہ اور صحابیات کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جعفر ؓ(جو حضرت علی ؓ کے بھائی تھے) آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا حضرت اسماء رضی اللہ عنھا زوجہ حضرت جعفر ؓ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ ، حضرت ابو حذیفہؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ،حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ اور حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا جیسے جلیل القدر صحابہ اور صحابیات شامل تھیں۔
حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا روایت فرماتی ہیں کہ جب ہم حبشہ میں تھے نجاشی بادشاہ حبش کے پاس تو ہم بہت امن سے تھے کوئی برائی کی بات ہمارے سننے میں نہ آئی تھی اور ہم اپنے دین کے کام بخوبی انجام دیتے تھے پس قریش نے اپنے میں سے دو بہادر شخصوں کو جو عبداللہ بن ربیعہ اور عمرو بن عاص ہیں نجاشی کے پاس مکہ کی عمدہ عمدہ چیزیں تحفہ کے واسطے دے کر روانہ کیا پس یہ دونوں شخص نجاشی کے پاس آئے اور پہلے اس کے ارکان سلطنت سے مل کر ان کو تحفے اور ہدیے دئیے اور ان سے کہا کہ ہمارے شہر سے چند جاہل نوعمر لوگ اپنا قدیمی دین و مذہب ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں اور ایک ایسا نیا مذہب اختیار کیا ہے کہ جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ تم جانتے ہو اب ہم بادشاہ کے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ان لوگوں کو بادشاہ ہمارے ساتھ روانہ کر دے………پھر ان دونوں نے وہ ہدیے جو بادشاہ کے واسطے لائے تھے اس کے حضور میں پیش کیے اس نے قبول کئے پھر ان سے گفتگو کی انہوں نے عرض کیا اے بادشاہ ! ہماری قوم میں سے چند نو عمر جہلا اپنے قومی مذہب کو ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور آپ کا مذہب بھی اختیار نہیں کیا ہے ایک ایسے نئے مذہب کے پیرو ہیں جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ جانتے ہیں …… آپ ان کو ہمارے ساتھ روانہ کر دیں نجاشی کے افسران سلطنت اور علماء مذہب نے بھی ان دونوں کے قول کی تائید کی…… نجاشی بادشاہ حبش…… نے کہا میں ان سے ان دونوں شخصوں کے قول کی نسبت دریافت کرتا ہوں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ اگر واقعی یہی بات ہے تو جو یہ دونوں کہتے ہیں تو میں ان کو ان کے حوالے کر دوں گا اور ان کی قوم کے پاس بھیج دونگا اور اگر کوئی اور بات ہے تو نہ بھیجوں گا ۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ پھر نجاشی نے اصحاب رسول مقبول ﷺ کو بلوایا…… جب یہ لوگ (صحابہؓ( پہنچے نجاشی نے ان سے کہا وہ کونسا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے اور اپنی قوم کا مذہب چھوڑدیا ہے اور کسی اور مذہب میں بھی داخل نہیں ہوئے ۔ ام سلمہؓ فرماتی ہیں صحابہؓ میں سے حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ نے گفتگو کی اور عرض کیا کہ اے بادشاہ ! ہم لوگ اہل جاہلیت تھے بتوں کی پرستش ہمارا مذہب تھا مردار خوری ہم کرتے تھے ، فواحش اور گناہ کا ارتکاب ہمارا وطیرہ تھا قطع رحم اور پڑوس کی حق تلفی اور ظلم و ستم کو ہم نے جائز رکھا تھا جو زبردست ہوتا وہ کمزور کو کھا جاتا ۔پس ہم ایسی ہی ذلیل حالت میں تھے جو اللہ نے ہم پر کرم کیا اور اپنا رسول ہم میں ارسال فرمایا……… ہماری قوم نے اس دین حق کے اختیار کرنے پر ہم کو تکلیفیں دیں اور ہم کو ستایا تاکہ ہم اس دین کو ترک کردیں اور بتوں کی پرستش اختیار کریں اور جس طرح افعال خبیثہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں ہم بھی حلال سمجھیں پس جب ان کا ظلم حد سے زیادہ ہوا اور انہوں نے ہمارا وہاں رہنا دشوار کر دیا ہم وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور آپ کے ملک کو ہم نے پسند کیا اور آپ کے پڑوس کی ہم نے رغبت کی اور اے بادشاہ ہم کو امید ہوئی کہ یہاں ہم ظلم سے محفوظ رہیں گے۔ نجاشی نے جعفر ؓ سے پوچھا کہ جوکچھ تمہارے نبی پر نازل ہوتا ہے اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے ؟ یعنی تم کویاد ہے؟ جعفر نے کہا ہاں یاد ہے۔ نجاشی نے کہا پڑھو۔ پس جعفر ؓ نے سورة مریم شروع کی‘‘۔
(سیرة ابن ہشام مترجم اردو ص۱۱۱،۱۱۲ جلد ۲)

حضرت جعفر ؓ نے نجاشی کے دربار میں سورة مریم بھی صرف آیت ذَالِکَ عِیْسیٰ ابْنُ مَرْیَمَ (مریم:۳۵ع۲) تک پڑھی تھی۔
۔( تفسیر مدارک التنزیل مصنفہ امام نسفی جلد ۱ ص۲۲۱ مطبع السعادة مصر زیر آیت ذلِٰکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُھْبَانًا الخ سورة المائدة :۸۳ ع۱۱ پ ۶ رکوع آخری)۔



ایک قابل غور سوال
اب یہاں ایک قابل غور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نجاشی نے قرآن مجید سننے کی فرمائش کی تو حضرت جعفرؓ نے سارے قرآن مجید میں سے سورة مریم کو کیوں منتخب کیا؟ ظاہر ہے کہ سورة مریم قرآن مجید کی پہلی سورت نہیں تھی حضرت جعفرؓسورة فاتحہ سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف بھی پڑھ کر سنا سکتے تھے جو ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوچکی تھیں اور ان تینوں سورتوں میں عیسائیت کا بالخصوص ذکر ہے۔ سورة فاتحہ کی آخری آیت ”غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِٓیْنَ“ میں یہود اور نصاریٰ کی دینی اتباع سے بچنے کے لئے دعا سکھائی گئی ہے اور سورة بنی اسرائیل اور کہف میں حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیھما السلام پر آنحضرت ﷺ کی فضیلت ثابت کرنے کے علاوہ عیسائی قوم کی تباہی کی بھی خبر دی گئی ہے پس اگر محض قرآن شریف کے سنانے کا سوال تھا تو پھر اول تو حضرت جعفر ؓ کو سورة فاتحہ پڑھنی چاہئے تھی کیونکہ وہ ام القرآن ہے اور سارے قرآن کا خلاصہ لیکن سورة مریم قرآن مجید کا خلاصہ نہیں ہے۔ پھر اگر عیسائیت کے متعلق اسلامی نظریہ کا بیان مقصود تھا تو سورة بنی اسرائیل اور سورة کہف سے بڑھ کر اور کوئی بہتر انتخاب نہ ہوسکتا تھا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے دربار میں پڑھنے کے لئے سورة مریم کو منتخب فرمایا اور اس میں سے بھی دو رکوع بھی پورے نہیں بلکہ قریبا ½ 1 رکوع کی تلاوت کی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ حضرت مریم کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے اور جس حصہ میں عیسائیت کے بارے میں کوئی اختلافی عقیدہ بیان نہیں کیا گیا ۔ پھر حضرت جعفر ؓ خاص طور پر آیت ذٰلِکَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقَّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ (مریم: ۳۵)پر آکر رک جاتے ہیں جس سے اگلی آیت یہ ہے مَاکَانَ للہِ اَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا سُبْحَانَہٗ (مریم ۳۶) یعنی اللہ کے شان شایان نہیں کہ وہ کوئی بیٹا بنائے وہ اس سے پاک ہے اس آیت میں ابنیت مسیح کی نفی کی گئی ہے عیسائیت کے ساتھ سب سے بڑا اختلافی مسئلہ بیان کر کے اگلی آیات میں عیسائیوں کی تباہی اور اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے لیکن حضرت جعفر ؓ مصلحتاً پچھلی آیت پر آکر رک جاتے ہیں اور صرف اسی حصہ پر اکتفا کرتے ہیں جس کے سننے سے ہر ایک عیسائی کا دل خوش ہوتا ہے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وفد قریش کا اعتراض تو یہ تھا کہ یہ لوگ ایک نئے دین کے متبع ہیں جو عیسائیت سے مختلف ہے اور نجاشی نے بھی یہی اعلان کیا تھاکہ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا تو میں مسلمانوں کو قریش کے حوالے کردونگا اور اسی دعویٰ کی تائید یا تردید حضرت جعفر ؓ سے مطلوب تھی لیکن انہوں نے جو آیات تلاوت فرمائیں ان سے کسی رنگ میں بھی وفد قریش کے دعویٰ کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت جعفر ؓ نے اس موقعہ پر بجائے یہ کہنے کے کہ ہاں یہ درست کہ کہ ہم ایک نئے دین کے علمبردار ہیں اور ایک نئی شریعت کے حامل ہیں جس نے توراة اور انجیل کو منسوخ کر دیا ہے ہم حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے کے عقیدہ کو ایک جھوٹا اور مشرکانہ عقیدہ سمجھتے اور عیسائی مذہب کو ایک محرف ومبدل اور غلط مذہب سمجھتے ہیں اور یہ کہ ہمارا نبی ﷺ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ ؑ بلکہ تمام انبیاء گذشتہ سے ہر لحاظ سے افضل ہے آپ نے سورة مریم کی صرف وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں حضرت مسیح ؑ اور حضرت مریم ؑ کا تقدس اور پاکیزگیر بیان کی گئی ہے لیکن ان سب سوالوں کا جواب یہی ہے کہ چونکہ وفد قریش کا مقصد تحقیق حق نہیں تھا بلکہ احراریوں کی طرح محض اشتعال انگیزی تھا اور وہ اختلافی امور میں بحث کوالجھا کر نجاشی اس کے درباریوں اور عیسائی درباریوں اور عیسائی پادریوں کو جو( اس وقت دربار میں حاضر تھے) مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا چاہتے تھے اس لئے حضرت جعفر ؓ نے ان کی اس شر انگیز اور مفسدانہ سکیم کو ناکام بنانے کے لئے بجائے اختلافی امور میں الجھنے کے قرآن مجید کی اس تعلیم پر زور دیا جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اسی طرح انہوں نے نجاشی کی حکومت کی (جو ایک غیر مسلم نصرانی حکومت تھی )جو تعریف کی وہ سراسر درست اور حق تھی اور بطور” ذب“ یعنی رفع التباس تھی۔ اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ۔اور نہ اس کو ”خوشامد“ کہا جاسکتا ہے ۔نیز نجاشی کی حکومت کی تعریف اس وجہ سے بھی” خوشامد“ نہیں کہلاسکتی کہ قریش مکہ کے جبرو استبداد اور ظلم وتعدی اور احیاء فی الدین کے مقابلہ میں حبشہ کی عیسائی حکومت کے اندر مذہبی آزادی اور عدل و انصاف کا دور تھا ۔پس اس تقابل کے نتیجہ میں حضرت جعفر ؓ اور دیگر مہاجر صحابہ کے دل میں جنہوں نے قریش مکہ کے بھڑکائے ہوئے جلتے تنور سے نکل کر حبشہ کی عیسائی حکومت کے ماتحت امن وامان اور سکون و آرام پایاتھا نجاشی کے لئے جذبات تشکر و امتنان کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا اور پھر نجاشی کے سامنے ان جذبات کا اظہار بموجب حکم ”مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ“( ابو داوٴد کتاب الادب ۔ترمذی کتاب البر)ضروری تھا۔



انگریزی حکومت کی تعریف سکھوں کے ظلم و ستم سے تقابل کے باعث تھی
بعینہ اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں بھی جب بعض مخاف علماء اور پادریوں نے حکومت وقت کو آپ اور آپ کی جماعت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی اور آپ پر” باغی“ ہونے کا جھوٹا الزام لگایا تو ضروری تھا کہ حضرت مرزا صاحب اس الزام کی تردید پر زور الفاظ میں کرتے اور حکومت کو اپنے ان جذبات امتنان سے اطلاع دیتے جو سکھوں کے وحشیانہ مظالم سے نجات حاصل ہونے کے بعد انگریزی حکومت کے پر امن دور میں آجانے کے باعث آپ کے دل میں موجود تھے۔



حضرت مرزا صاحب کی تحریرات
چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی ان تحریرات میں جن میں آپ نے انگریزی حکومت کی امن پسندانہ پالیسی کی تعریف فرمائی ہے بار بار اس پہلو کا ذکر فرمایا ہے۔
فرماتے ہیں:۔
۔(۱) ۔”مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کے دست تعدی سے نہ صرف مسلمانوں کی دنیا ہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بدتر تھی۔ دینی فرائض کا ادا کرنا تو در کنار بعض اذان نماز کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے ایسی حالت زار میں اللہ تعالیٰ نے دور سے اس مبارک گورنمنٹ کو ہماری نجات کے لئے ابر رحمت کی طرح بھیجدیا جس نے آن کر نہ صرف ان ظالموں کے پنجہ سے بچایا بلکہ ہر طرح کا امن قائم کر کے ہر قسم کے سامان آسائش مہیا کئے اور مذہبی آزادی یہاں تک دی کہ ہم بلا دریغ اپنے دین متین کی اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں‘‘۔
(اشتہار ۱۰ جولائی )
(۱۹۰۰تبلیغ رسالت جلد ۹ ص ۱،۲)

۔ (۲)۔” رہی یہ بات کہ اس ( شیخ محمد حسین بٹالوی) نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا ہے ۔ سو خدا تعالی کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائیگی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کاروائیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی محافظ نہیں تو پھر کیونکر شریروں کے حملوں سے محفوظ ہیں ۔کیا یہ امر کسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سننے سے بھی مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے ۔کسی مسلماں مولوی کی مجال نہ تھی ۔کہ ایک ہندو کو مسلمان کر سکے‘‘۔
  (اشتہار ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ )
(تبلیغ رسالت جلد ۷ ص۶۸)

پھر فرماتے ہیں :۔
۔ (۳)۔ ان احسانات کا شکر کرنا ہم پر واجب ہے جو سکھوں کے زوال کے بعد ہی خدا تعالی کے فضل نے اس مہربان گورنمنٹ کے ہاتھ سے ہمارے نصیب کئے۔۔۔۔۔اگرچہ گورنمنٹ کی عنایات سے ہر ایک کو اشاعت مذہب کے لئے آزادی ملی ہے۔لیکن اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اس آزادی کا پورا پورا فائدہ محض مسلمان اٹھا سکتے ہیں اور اگر عمدا فائدہ نہ اٹھائیں تو ان کی بد قسمتی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے ۔۔۔۔۔۔کسی کو اپنے اصولوں کی اشاعت سے نہیں روکا،لیکن جن مذہبوں میں سچائی کی قوت اور طاقت نہیں کیونکر ان مذہبوں کے واعظ اپنی ایسی باتوں کو وعظ کے وقت دلوں میں جما سکتے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔اس لئے مسلمانوں کو نہایت ہی گورنمنٹ کا شکر گزار ہو نا چاہیے کہ گورنمنٹ کے اس قانون کا وہی اکیلے فائدہ اٹھا رہے ہیں “۔
( اشتہار ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ )
(تبلیغ رسالت جلد ۴ ص ۳۰ ،۳۳ )
(   تبلیغ رسالت جلد ۳ ص ۱۹۴)



تنور سے نکلکر دھوپ میں
پس مطابق مقولہ
وَ بِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَاءٗ
انگریزی نظام حکومت قابل تعریف تھا لیکن اس لئے نہیں کہ وہ اپنی ذات میں آئیڈئیل نظام تھا بلکہ اس لئے کہ اپنے پیشرو سکھ نظام کے مسلمانوں پر ننگ انسانیت مظالم اور جبر و استبداد کے مقابلہ میں اس نظام کی مذہبی رواداری اور شہری حقوق میں عدل و انصاف کا قیام عمدہ اور لائق شکریہ تھا مسلمانان ہند کی مثال اس شخص کی سی تھی جو بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پڑا جل رہا ہواور اس کو کوئی ہاتھ اس آگ میں سے نکال کر دھوپ میں ڈال دے اب اگرچہ وہ شخص دھوپ میں ہے لیکن آگ کے شعلوں کی تپش کے تصور سے وہ اس ہاتھ کو رحمت خداوندی جان کر اس کا شکریہ ادا کریگا اور اگر ایسا نہ کرے تو کافر نعمت ہوگا پھر یہ جذبات تشکر اسی طرح کے تھے جس طرح مہاجرین حبشہ نے قریش مکہ کے جبر و استبداد کے مقابلہ میں حبشہ کے عیسائی نظام کو ایک فضل خداوندی اور نعمت غیر مترقبہ سمجھا ۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے مقابلہ میں نجاشی کی کامیابی اور کامرانی کے لئے صحابہ رو رو کر دعائیں بھی کرتے رہے ۔ چنانچہ حضرت ام الموٴمنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔
۔ ”ہم نے وہاں (حبشہ میں) نہایت اطمینان سے زندگانی بسر کی ۔ پھر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ نجاشی کی سلطنت میں کوئی دعویدار پیدا ہوگیا اور اس نے نجاشی پر لشکر کشی کی ۔فرماتی ہیں اس خبر کو سن کر ہم لوگ بہت رنجیدہ ہوئے اور یہ خیال کیا کہ اگر خدانخواستہ وہ مدعی غالب ہوا تو نامعلوم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے؟فرماتی ہیں۔نجاشی بھی اپنا لشکر لے کر اس کے مقابلہ کو گیا اور دریائے نیل کے اس پار جنگ واقع ہوئی۔ فرماتی ہیں صحا بہ نے آپس میں کہا۔ کوئی ایسا شخص ہو جو دریا کے پار جاکر جنگ کی خبر لائے……زبیر بن عوام نے کہا میں جاتا ہوں۔ صحابہ نے ایک مشک میں ہوا بھر کر ان کے حوالے کی اور وہ اس کو سینے کے تلے دبا کر تیرتے ہوئے دریا کے پار گئے اور وہاں سے سب حال تحقیق کر کے واپس آئے۔ فرماتی ہیں ہم یہاں نجاشی کی فتح کے واسطے نہایت تضرع و زاری کے ساتھ خدا سے دعا مانگ رہے تھے کہ اتنے میں زبیر بن عوام واپس آئے اور کہا کہ اے صحابہ !تم کو خوشخبری ہو کہ نجاشی کی فتح ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو ہلاک کیا فرماتی ہیں پھر تو نجاشی کی سلطنت خوب مستحکم ہو گئی اور جب تک وہاں ہم رہے نہایت چین اور آرام سے رہے ۔ یہاں تک کہ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں مکہ میں حاضر ہو ئے ‘‘۔
(سیرت ابن ہشام مترجم اردو ص ۱۱۳ جلد ۲)
پس اگر کوئی انصاف پسند اور غیر متعصب انسان سکھ نظام کے صبر آزما دور ۔ ۱۸۵۷ء کے سانحہ اور ان کے بعد کے تاریخی حالات کو مد نظر رکھ کر ان عبارات کو پڑھے اور اس امر کو بھی پیش نظر رکھے ۔ کہ وہ تحریرات مخالفین کی طرف سے انگریزی گورنمنٹ کا باغی ہو نے کے جھوٹے �

No comments:

Post a Comment