Wednesday 13 June 2012

مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ کی موت کی پیشگوئی کی؟

1 نمبر
یہ افتراء ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر گز ثنا ء اللہ کی موت کی پیشگوئی نہیں کی۔
چنانچہ آپ اشتہار” آخری فیصلہ“ میں لکھتے ہیں:۔
۔”یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں “۔
( مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص ۵۷۹ مطبوعہ الشرکہ الاسلامیہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء )


کوئی مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ حضورؑ  نے ثناء اللہ کے متعلق حضور کی زندگی میں مرنے کی پیشگوئی کی تھی ۔
ہاں اس کو دعوت مباہلہ دی تھی جس کی تفصیل درج ذیل ہے:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”انجام آتھم “میں تمام علماء گدی نشینوں اور پیروں کو” آخری فیصلہ“ ( مباہلہ ) کی دعوت دی۔
چنانچہ آپ لکھتے ہیں :۔
وَ اٰخِرُ الْعِلَاجِ خُرُوْجُکُمْ اِلٰی بَرَازِ الْمُبَاھَلَۃِ ۔۔۔۔۔ ھٰذَا اٰ خِرُ حِیَلِ اَرَدْنَاہُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ
( انجام آتھم ص ۱۶۵ مطبع ضیاء الاسلام قادیان)
کہ آخری علاج تمہارے لئے میدان مباہلہ میں نکلنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہی آخری طریق فیصلہ ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے۔


اس دعوت مباہلہ میں آپ نے فرمایا کہ فریقین ایک دوسرے کے حق میں بددعا کریں کہ فریقین میں سے جو فریق جھوٹا ہے، اے خدا تو اس کو ایک سال کے عرصے تک نہایت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنوں اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔
( انجام آتھم ص۶۶ مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان)


اور اسکے بعد لکھا :۔
۔” گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان !کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ توہین وتکفیر کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو“۔
( ایضا صفحہ ۶۷)


اس رسالہ کے مخاطبین میں سے مولوی ثناء اللہ کا نمبر ۱۱ تھا۔ مولوی صاحب نے اس چیلنج کا کچھ جواب نہ دیا، اور اپنی مہر خاموشی سے جری اللہ فی حلل الانبیاء کی صداقت پر مہر ثبت کر دی، لیکن جب ان پر ہر طرف سے دباؤ ڈالا گیا تو اس بدقسمت جانور کی طرح جو شیر کو دیکھ کر انتہائی بدحواسی سے خود ہی اس پر حملہ کر بیٹھتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کی جس کے جواب میں حضرت اقدس نے لکھا ۔




حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب
۔” مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لئے بہ دل خواہش مندہوں، کہ فریقین یعنی میں اور وہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں مر جائے“۔
( اعجاز الاحمدی ص ۱۴ پہلا ایڈیشن)


۔”اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے“۔
( اعجاز احمدی ص ۱۴ ایڈیشن اول)
ثنائی حیلہ جوئی:۔ ”چونکہ خاکسار نہ واقع میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ یا الہامی ہے، اس لئے ایسے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ میں افسوس کرتاہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرات نہیں“۔
( الہامات مرزا ص ۸۵ طبع دوم و ص ۱۱۱ طبع ششم )
لیکن جب ہر طرف سے لعن طعن ہوئی تو لکھا :۔


ثناء اللہ کی دوبارہ آمادگی
۔” البتہ آیت ثانیہ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَا ءَ کُمْ ۔۔۔۔ ثُمَّ نَبْتَھِلْ ۔۔۔۔( سورہ آل عمران ۶۲) پر عمل کرنے کے لئے ہم تیار ہیں میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں جو آیت مرقومہ سے ثابت ہوتا ہے جسے مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے“۔
(اہل حدیث ۲۲ جون ۱۹۰۶ء ص ۱۴)


۔’’ مرزائیو !سچے ہو تو آؤ اور اپنے گورو کو ساتھ لاؤ۔ وہی میدان عیدگاہ امرتسر تیار ہے جہاں تم پہلے صوفی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو ( جھوٹ ہے وہاں ہر گزکوئی ایسا مباہلہ نہیں ہوا ۔ جس میں فریقین نے ایک دوسرے کے حق میں بددعا کی ہو۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے کوئی بددعانہیں کی تھی، ) اورا نہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے دعوت دی ہے کیونکہ جب پیغمبر جی سے فیصلہ نہ ہو، سب امت کے لئے کافی نہیں ہو سکتا “۔
( اہل حدیث ۲۹ مارچ ص ۱۰ ۱۹۰۷ء)
مولوی ثناء اللہ صاحب کی یہ تحریر ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ء کی ہے مگر اس سے کچھ دن قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقةالوحی میں ( جو اس وقت زیر تصنیف تھی ) یہ تحریر فرما چکے تھے کہ” میں بخوشی قبول کرونگا ،اگر وہ (ثناء اللہ ) مجھ سے درخواست مباہلہ کریں“۔
( تتمہ حقیقة الوحی ص ۳۰ و روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۴۶۲)


۔”مباہلہ کی درخواست کرے“۔
( ایضا ص ۳۳)
( ایضا ۴۶۵)
حضرت اقدس کی یہ تحریر ۲۵ فروری ۱۹۰۷ء کی ہے جیسا کہ تتمہ حقیقة الوحی کے ص ۳۶ سطر ۱۰ سے معلوم ہوتا ہے۔اس تحریر سے ظاہر ہے کہ حضرت ؑ کا ارادہ یہ تھا کہ اب اگرمولوی ثناء اللہ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کرے تو اسے بھاگنے نہ دیا جائے ۔چنانچہ جب اس نے ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ کو دعوت مباہلہ دی ( جو اوپر درج ہو چکی ہے) تو حضرت کی طرف سے مندرجہ ذیل جواب بدر ۴ اپریل ۱۹۰۷ میں دیا گیا، لیکن مولوی ثناء اللہ پھر فرار کی راہ اختیار کرنے لگا، جیسا کہ اس کے جواب میں مندرجہ اہل حدیث ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ سے ظاہر ہے۔ تو اس کے جواب کے اشاعت سے قبل ہی اللہ تعالی نے حضرت اقدس ؑ کو اس کے ارادہ سے مطلع فرما دیا اور حضورؑ نے ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ کا اشتہار آخری فیصلہ شائع فرما دیا تاکہ ثناء اللہ کے لئے گول مول کر کے ٹالنے کی گنجائش نہ رہے اور وہ مجبور ہو کر تصرف الہی کے ماتحت موت کو اپنے سر پر سوار دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ” تمہاری یہ تحریر مجھے منظور نہیں، اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے“۔
( اخبا ر اہل حدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ ء )


چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے :۔


حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب
۔”مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ مرزا صاحبؑ  نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے۔ بے شک (آپ) قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اور بے شک یہ بات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹاہوں تو لَعْنَةُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۔ مباہلہ کی بنیاد جس آیت قرآنی پرہے اس میں تو صرف لَعْنَةُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ آیا ہے“۔
( اخبار بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء)




ثنا ئی فرار
۔”میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا، میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں۔ حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں ۔میں نے حلف اٹھا نا کہا ہے ۔مباہلہ نہیں کہا ۔قسم اور ہے مباہلہ اور ہے“۔
( اہل حدیث ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ ص ۴)


ابھی یہ ثنائی فرار معرض وجود میں نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالی نے جو علیم و خبیر ہے اپنے مسیح موعودؑ کو اس کی اطلاع دے کر اپنے شکار کو دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کے لئے ایک طریق کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ اس کے مطابق حضور نے آخری اتمام حجت کے طور پر ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ کو اپنی طرف سے ”دعائے مباہلہ“ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ” آخری فیصلہ “کے عنوان سے شائع فرما دی۔ جس میں اپنی طرف سے دعا فرمائی کہ خدا تعالی سچے کی زندگی میں جھوٹے کو ہلاک کر دے اور با لآخر لکھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اس اشتہار کو اہل حدیث میں شائع فرما کر” جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے“۔
مولوی ثناء اللہ نے اس اشتہار کو اہل حدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ میں شائع کیا اور اس کے نیچے یہ لکھا:۔
 ۔’’اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی ،ا ور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا“۔
( اخبار اہل حدیث ۲۶ اہریل ۱۹۰۷ )
”تمہاری یہ تحریر کسی صورت میں بھی فیصلہ کن نہیں ہو سکتی“
( ایضا )
”میرا مقابلہ تو آپ سے ہے۔ اگر میں مر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے“۔ ”خدا کے رسول چونکہ رحیم کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ پڑ ے مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں“۔
۔”خداتعالی جھوٹے ،دغا باز، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں “۔


نوٹ:۔ یہ آخری عبارت نائب ایڈیٹر کی طرف سے لکھی گئی مگر مولوی ثناہ اللہ نے اس کی تصدیق کی اور لکھا کہ” میں اس کو صحیح جانتا ہوں“۔
(اہل حدیث ۳۱ جولائی ۱۹۰۷)
۔”مختصر یہ کہ ۔۔۔۔ یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے“۔
( اقتباسات از اہل حدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ ص ۵۔۶)


مولوی ثناء اللہ پھر لکھتا ہے :۔ ۔
۔”آنحضرت ﷺ باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال فرماگئے، اور مسیلمہ باوجود کاذب ہونے کے صادق سے پیچھے مرا “۔
( مرقع قادیا نی اگست ۱۹۰۷ ص ۹)


۔”کوئی ایسی نشانی دکھاؤ جو ہم بھی دیکھ کر عبرت حاصل کریں،مر گئے تو کیا دیکھیں گے اور کیا ہدایت پائیں گے “۔
( اخبار وطن امرتسر ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ ص ۱۱)
پس چونکہ مولوی ثنا ء اللہ صاحب نے اپنی پرانی عادت کے مطابق نجران کے عیسائیوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مباہلہ سے فرار اختیار کیا، اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور ثناء اللہ کو خداتعالی نے اس کے تسلیم کردہ اصول کے رو سے ”جھوٹے ،دغا باز، مفسد اور نافرمان “لوگوں کی طرح لمبی عمر دی اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے زندہ رکھ کر” مسیلمہ کذاب “ثابت کر دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار ”مسودہ مباہلہ“ ہے جس طرح قرآن مجید کی آیت مباہلہ میں لَعْنَةُ اللہِ عَلَی الْکَا ذِبِیْنَ ( سورة ال عمران ۶۲) آنحضرت ﷺ کی طرف سے” مسودہ مباہلہ“ تھی۔ وہاں چونکہ عیسائی بھاگ گئے تھے اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور وہ نہ مرے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا:۔
۔’’ لَمَّا جَاءَ الْحَوْلُ عَلَی الَّنَصٰرٰی کُلُّھُمْ حَتّٰی یَھْلِکُوْا‘‘۔
( تفسیر کبیر لفخر الرازی جلد ۸ ص ۸۵ مصری مطبوعہ ۱۹۳۸ پہلا ایڈیشن)
اگر عیسائی مباہلہ کر لیتے اور آنحضرتﷺ کی طرح لَعْنَةُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہہ دیتے تو ان میں سے ہر ایک ایک سال کے اندر ہلاک ہو جاتا ۔ اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر مولوی ثناء اللہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں میدان مباہلہ سے بھاگ نہ جانا ۔ اور حضرت کی خواہش کے مطابق وہی بددعا کرتا تو یقینا ہلاک ہو جاتا۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود تحریر فرمایا ہے کہ:۔
۔ ” اگر اس چیلنج پر وہ ( ثناء اللہ ) مستعد ہوئے کہ کاذب صادق سے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے“۔
( اعجاز احمدی ص ۳۷)
پس جس طرح وہاں پر نجران کے عیسائیوں کا فرار”خدائی فیصلہ بروئے مباہلہ“ کے رستہ میں روک ثابت ہوا۔ یہاں بھی ثناء اللہ کا مندرجہ بالا فرار اس کو ہلاکت سے بچا گیا۔ نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرتﷺ سے بڑے ہیں اور نہ مولوی ثناء اللہ نجرا ن کے عیسائیوں سے بڑا ہے۔




اشتہار آخری ” مسودہ مباہلہ“ تھا  
۔(۱)۔خود مولوی ثنا ء اللہ لکھتا ہے :۔
۔”کرشن قادیان نے ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا “۔
( مرقع قادیان جون ۱۹۰۸ ص ۱۸)


۔(۲)۔” آج تک مرزا صاحب نے کسی مخالف سے ایسا کھلا مباہلہ نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ گول مول رکھا کرتے تھے“ ۔
( اشتہار مرزا قادیانی کا انتقال اور اس کا نتیجہ شائع کردہ ثناء اللہ ۳۱ مئی ۱۹۰۸ )


۔(۳) ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار کا عنوان ہے ۔ مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ
( مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص ۵۷۹ از الشرکہ الاسلامیہ )
اور مولوی ثناء اللہ کے نزدیک ”آخری فیصلہ “ مباہلہ ہی ہوتا ہے جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :۔
۔” ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جانیں، کسی علمی بات کو نہ سمجھیں بغرض” بدرا بدر بائید رسانید“ کہہ دے کہ آ ؤ ایک آخری فیصلہ بھی سنو ، ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے، اپنی بیٹیاں اور تمہاری بیٹیاں ، اپنے بھائی بند نزدیکی اور تمہارے بھائی بند نزدیکی بلائیں ،پھر عاجزی سے جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔ خدا خود فیصلہ دنیا میں ہی کر دے گا “۔
( تفسیر ثنائی جلد ۱ص ۲۲۲۔۲۲۳ ادارہ ترجمان السنہ ۷ ایبک روڈ انار کلی لاہور )


۔ (۴)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک بھی یہ دعائے مباہلہ ہی تھی جیسا کہ حضورؑ  فرماتے ہیں:۔
۔” مباہلہ بھی ایک آخری فیصلہ ہوتا ہے۔آنحضرتﷺ نے بھی نصاری کو مباہلہ کے واسطے طلب کیا تھا ۔مگر ان میں سے کسی کو جرات نہیں ہوئی“۔
( بدر۷ ۱ مئی ۱۹۰۶)


۔(۵)۔ حضرت اقدسؑ نے بعینہ” آخری فیصلہ “ والی دعا کے مطابق ایک اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ کو مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے متعلق شائع فرمایا تھا ۔
اس کے متعلق حضور  فرماتے ہیں:۔
۔ ” ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ کا ہمارا اشتہار جو مباہلہ کے رنگ میں شیخ محمد حسین اور اس کے دو ہم راز رفیقو ں کے مقابل پر نکلا ہے وہ صرف ایک دعاہے “۔
( راز حقیقت ص ب اشتہار ۳۰ نومبر۸ ۱۸۹)
۔”اب یہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ ” ایک آخری فیصلہ ہے چاہیے کہ ہر ایک طالب صادق صبر سے انتظار کرے“۔
( راز حقیقت ص ۱۴)
گویا حضرت نے اشتہار کو جو” مباہلہ“ کے رنگ میں ہےا یک ”دعا“ پر مشتمل تھا ”آخری فیصلہ “قرار دے کر بتا دیا ہے کہ حضور کے نزدیک آخری فیصلہ سے مرا دمباہلہ ہی ہوتا ہے“ ۔
(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ ص ۵۸)
حضورؑ تحریر فرماتے ہیں:۔” کیونکہ جس کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں“ ۔
(تبلیغ رسالت جلد ۷ ص ۵۲)
(مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ ص ۵۸)


۔(۶)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک صرف اور صرف مباہلہ کی صورت میں جھوٹا سچے کی زندگی میں مرتا ہے، جیسا کہ حضور تحریر فرماتے ہیں ۔ یہ کہاں لکھا ہےکہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جاتا ہے ۔ ہم نے تواپنی تصانیف میں ایسا ہی لکھا ، ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں مر جاتا ہے کیا حضورﷺکے سب اعداء ان کی زندگی میں ہلاک ہو گئے تھے ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے ۔ ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والاسچے کی زندگی میں ہلاک ہو اکرتا ہے ۔ ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے ۔ ہم تو ایسی باتیں سن کر حیران ہو جاتے ہیں ، دیکھو ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر کے پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں ۔ کیا کسی نبی ،ولی ، قطب ، غوث کے زمانہ میں ایسا ہوا کہ سب اعداء مر گئے ہوں ،بلکہ کافرمنافق باقی رہ گئے تھے، ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوتے ہیں ۔ ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کے ہی جھوٹے سچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں ، وہ جگہ تو نکالو جہاں یہ لکھا ہے “۔
(الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۷ءص۹)


۔(۷)۔ ثنا ء اللہ اگر اس کو اشتہار مباہلہ نہ سمجھتا تھا تو اس کے جواب میں یہ کیوں لکھا ہے تھا کہ” اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی ، اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا“ ۔
(اخبار اہل حدیث ۲۶ اپریل۷ ۱۹۰ء )
کیونکہ ظاہر ہے کہ یکطرفہ بددعا کے لئے دوسرے کی اجازت کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ منظوری یا عدم منظوری کا سوال صرف اور صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ یہ دعائے مباہلہ ہو ۔


۔(۸)۔عنوان اشتہار ہے:۔ ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ “۔
(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ ص ۵۷۹از الشرکة الاسلامیہ )
۔”ساتھ“ کا لفظ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہ یکطرفہ دعا نہیں بلکہ دونوں فریقوں کی رضامندی کا سوال ہے۔ اگر ایک طرفہ دعا ہوتی تو” مولو ی ثناء اللہ صاحب کے متعلق آخری فیصلہ“ ہونا چاہئے تھا ۔ مجسٹریٹ جب فیصلہ کر تا ہے تو” زید یا بکر کے متعلق“ فیصلہ کرتا ہے ، لیکن جب یہ کہا جائے کہ” زید نے بکر ساتھ فیصلہ کیا “تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زید اور بکر دونوں کی رضامندی سے یہ فیصلہ ہوا ۔ اگر ایک فریق بھی نا رضا مند ہو تو اندریں صورت وہ فیصلہ قائم نہ رہے گا ۔ پس چونکہ مولوی ثنا ء اللہ اس فیصلہ پر رضامند نہ ہوا اور لکھا کہ
۔”یہ تحریر مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے“۔
(اخبار اہل حدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء)
تو وہ دعا” فیصلہ“ نہ رہی ۔ اسی وجہ سے ثناء اللہ نے بھی لکھا تھا کہ :۔ ”یہ دعا فیصلہ کن نہیں ہو سکتی“۔


۔(۹)۔ حضرت اقدس ؑ کا لکھنا کہ” جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں“۔
(مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ ص ۵۷۹ اشتہار مرقومہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ )
صاف طور پر بتاتا ہے کہ حضرت اس مسودہ مباہلہ کو مکمل اسی صورت میں سمجھتے تھے جب ثنا ء اللہ بھی اس کے نیچے اپنی منظوری لکھدے ۔ ورنہ اگر یکطرفہ دعا ہوتی تو اس کے نیچے ثنا ء اللہ کے لکھنے یا نہ لکھنے کا سوال پیدا نہ ہوتا ۔


۔(۱۰)۔ حضرت اقدس ؑ کا لکھنا کہ ”ا س تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں“۔
(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ ص۵۷۹ مرقومہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء)
صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ حضرت کا منشاء یہی تھا کہ ثناء اللہ کے ہاتھ سے حضور کی دعا اور اپنی تصدیق دونوں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں ۔ تا مسودہ مباہلہ مکمل ہو کر ثناء اللہ کا خاتمہ کر دے ۔


۔(۱۱)۔ مولوی ثنا ء اللہ خود لکھتا ہے :۔ ”مرز اجی نے میرے ساتھ مباہلہ کا ایک طولانی اشتہار دیا“۔
(مرقع قادیانی دسمبر ۱۹۰۷ء ص ۳)


۔(۱۲)۔” وہ( حضرت مسیح موعودؑ)اپنے اشتہار مباہلہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء میں چیخ اٹھا تھا کہ اہل حدیث نے میری عمارت کو ہلا دیا ہے“۔
(اہل حدیث ۱۹ جون ۱۹۰۸ء )


۔(۱۳)  حضورؑ  لکھتے ہیں:۔
۔ ”میں جانتا ہوں کہ مفسداور کذاب کی بہت عمرنہیں ہوتی اورآخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہو جاتا ہے“ ۔
اور ہم ابھی حضرتؑ  کے مفلوظات (ازالحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۷ء) سے دکھا چکے ہیں کہ یہ اصل صرف اور صرف مباہلہ ہی کی صور ت میں ہوتا ہے۔


۔(۱۴) حضرت اقدسؑ  نے اپنے اس اشتہار میں جو انجام جھوٹے کا تحریر فرمایا ہے وہ بعینہ وہی ہے جو انجام آتھم میں حضرت نے جھوٹا مباہلہ کرنیوالے کا تحریر فرمایا ہے ۔
  (انجام آتھم ص ۲۵ تا ص ۷۲ نیز دیکھیں ص ۱۶۵)


۔(۱۵)۔ مولوی ثناء اللہ لکھتا ہے:
۔” مرزائیو ! کسی نبی نے بھی اس طرح اپنے مخالفوں کو اس طریق سے فیصلہ کے لئے بلایا ہے ؟ بتلاؤ تو انعام لو“ ۔
(اہلحدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء)
اگر حضور ؑ کا اشتہار ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء
(مجمو عہ اشتہارات جلد۳ ص ۵۷۹)
محض یک طرفہ بد دعا تھی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو پہلے انبیاء میں نہ ملتی ہو اور جس کا ثناء اللہ کو انکار ہو جیسا کہ وہ لکھتا ہے :۔
۔ ”اس قسم کے واقعات بیشمار ملتے ہیں جن میں حضرا ت انبیاءؑ  نے مخالفوں پر بد دعائیں کیں“ ۔
(روئداد مباحثہ لدھیانہ ص ۶۷)
پس مولوی ثناء اللہ کے مطالبہ کا مطلب صرف یہی ہے کہ انبیاء جب مباہلہ کے لئے بلاتے ہیں تو پہلے اپنے مخالفوں کی منظور ی لے لیتے ہیں ۔ یہاں پر حضرت نے ثناء اللہ کی بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا ۔ پس ثناء اللہ اس طریق کار کی مثال مانگتاتھا نہ کہ محض بد دعا کی ۔ کیونکہ اس کے لئے منظوری کی ضرورت نہیں ۔






ثنائی عذرات
ثناء اللہ کوعذر ہے کہ مباہلہ کے لئے یہ شرط تھی کہ حقیقة الوحی شائع ہونے اور ثناء اللہ کو بذریعہ رجسٹری بھیجنے کے بعد مباہلہ ہو گا۔ اب حضرت اقدسؑ  نے حقیقة الوحی کے چھپنے سے قبل ہی اس کو کیوں شائع کرد یا ؟
سو اس کا جواب یہ ہے کہ ثناء اللہ نے اخبار اہل حدیث ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ء میں جب چیلنج مباہلہ دیا تو حضرت نے اس کو مہلت دینا ہی پسند فرمایا کہ ”باوجود اس قدر شوخیوں اور دلآزاریوں کے جو ثنا ء اللہ سے ہمیشہ ظہور میں آتی ہیں حضرت اقدسؑ  نے پھر بھی رحم کر کے فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو جبکہ ہماری کتاب حقیقہ الوحی چھپ کر شائع ہو جائے ۔
(بد ر ۴ اپریل ۱۹۰۷ء ص ۴ کالم نمبر ۲ )
لیکن چونکہ ثناء اللہ نے ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ء ص ۴ کے اہل حدیث میں پھر فرار اختیار کر لینا تھا (جس کا حوالہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ص ۴۸۲)اور خدا تعالیٰ کو اس کا علم تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۵ اپریل ہی کو اس کے فرار کے شائع ہونے سے پہلے ہی دعا مباہلہ لکھنے کی ہدایت فرما دی ، چنانچہ حضرت فرماتے ہیں:۔
۔” ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خداہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے “۔
(بد ر ۲۵ اپریل ۱۹۰۷ء ص ۷ کالم نمبر ۲)
حضرت اقدس ؑ کا ثناء اللہ سے کوئی” معاہدہ“ نہ تھا کہ حقیقة الوحی چھپنے تک مباہلہ نہ ہو گا ۔ یہ صرف حضور کا اپنا ارادہ تھا بوجہ رحم کے ثنا ء اللہ نے اس تجویز کی منظوری کااعلان نہیں کیا تھا کہ وہ” معاہدہ“ کی صورت اختیار کر لیتا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت کے ارادہ کو( بوجہ اس فرار کے جو ثناء اللہ کرینوالا تھا) بد ل د یا۔ اس با ت کا ثناء اللہ کے لئے کوئی فرق نہ تھا کہ مباہلہ حقیقة الوحی کے چھپنے سے قبل ہو یا بعد میں ۔ کیونکہ وہ تو ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ء ص۱۰ کے اہل حدیث میں مباہلہ پرآمادگی ظاہرکر چکا تھا ۔ اب مباہلہ حقیقة الوحی کے چھپنے سے قبل ہو یا بعد میں یہ حضر ت کی مرضی پر موقوف تھا ۔ حضورؑ کا ارادہ کتاب کے چھپنے کے بعد مباہلہ کرنے کا تھا ، تا ثناء اللہ کو ایک اور موقعہ دیا جائے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ثناء اللہ کی بد نیتی کو دیکھ کر فورا حضرت کے ارادہ کو بدل دیا پس ثناء اللہ کا اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔






ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر 
باقی رہا مولوی ثنا ء اللہ کا یہ کہنا کہ بدر ۱۳ جون ۱۹۰۷ء ص ۲ کالم ۱ میں ایڈیٹر صاحب بدر نے لکھا ہے کہ مباہلہ قرار نہیں پایا ، تو اس کا جواب یہ ہے ۔
۔(الف) مولوی ثنا ء اللہ خود مانتا ہے کہ یہ تحریر ایڈیٹر صاحب بدر کی اپنی ہے ۔چنانچہ وہ لکھتا ہے ”بے نور بد رکے ایڈیٹر نے کمال ایمانداری سے اپنا جواب تو شائع کر دیا “۔
(مرقع قادیانی نومبر ۱۹۰۷ء ص ۲۲۲)


۔(ب) ۔ خود ایڈیٹر صاحب مفتی محمد صادق صاحب نے اخبار بدر کا بیان ہے کہ یہ تحریر ان کی اپنی طرف سے تھی ، حضور (مسیح موعودؑ )کے حکم یا علم سے نہیں لکھی گئی، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:۔
۔”اخبار بد ر مورخہ ۱۳ جون ۱۹۰۷ء ص ۲ کالم نمبر ۱ میں جو نوٹ بعنوان نقل’’ خط بنام مولوی ثناء اللہ صاحب“ شائع ہو اہے ، یہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کے مطالبہ حقیقة الوحی کا جواب ہے جو میں نے خودلکھا تھا اور یہ میرے ہی الفاظ ہیں ۔کیونکہ حضرت اقدس ؑ نے اس کے متعلق کوئی ہدایت نہ دی تھی ، میں نے اپنی طر ف سے جواب لکھ دیا تھا اس بیان کی اشاعت مناسب ہے تاکہ کوئی شخص اس نوٹ کو حضر ت ؑ کی طرف منسوب کر کے مغالطہ نہ دے سکے“۔
(تجلیات رحمانیہ ص ۱۷۴ بار اول ازقلم ابو العطا ء اللہ دتہ جالندھری مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۱ء )
جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اشتہار کو دعائے مباہلہ سمجھتے ہیں اور خود مولوی ثناء اللہ بھی اس کو دعائے مباہلہ ہی قرار دیتاتھا تو اس کے بالمقابل ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی ، جیسا کہ خود اہلحدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی بلکہ حضرت علیؓ  کی تفسیر تک کو نہیں مانتے ۔
(اہل حدیث ۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء ص ۱۲ کالم ۱ زیر عنوان اقتداء اہل حدیث )






حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کی تحریر
۔(۱) مولوی ثناء اللہ یہ کہا کرتا ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ  نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے موقعہ پر جو مضمون” محمود اور خدائی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ“ بعنوان” صادقوں کی روشنی“ شائع کیا اس میں لکھا ہے کہ ”یہ دعا دعائے مباہلہ نہیں تھی ۔ اب تم کیوں اس کو مباہلہ کی دعا قرار دیتے ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صریحا دھوکہ ہے ۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ اشتہار” آخری فیصلہ“ دعائے مباہلہ نہ تھا ۔ کیونکہ مباہلہ تو اس صور ت میں ہو تا کہ ثناء اللہ بھی بالمقابل قسم کھاتا یا دعا کرتا ۔ مگر چونکہ اس نے بالمقابل دعا نہیں کی اس لئے مبا ہلہ نہیں ہو ا۔حضرت خلیفة المسیح الثانی نے اسی مضمون میں صفائی اور صراحت کے ساتھ اس مجوزہ طریق کار کو ”مباہلہ “قرار دیا ہے اور پھر ثناء اللہ کے انکار کا ذکر کر کے فرمایا ہے کہ مباہلہ نہیں ہوا ۔چنانچہ چند اقتباسات اس مضمون سے یہاں درج کئے جاتے ہیں ۔ ۱ ۔” یہ ایک فیصلہ کا طریق تھاجس سے جھوٹے اور سچے میں فرق ہو جائے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ حق اور باطل میں کچھ ایساامتیاز پیدا ہو جائے کہ ایک گروہ بنی نوع انسان کا واقعات کی تہ تک پہنچ جائے اور شرافت اور نیکی کا مقتضا یہ تھا کہ مولوی ثناء اللہ اس دعا کو پڑھ کر اپنے اخبار میں شائع کر دیتا کہ ہاں مجھ کو یہ فیصلہ منظور ہے مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اس کو سوائے ہوشیار ی اور چالاکی کے اور کسی بات سے تعلق ہی نہیں ۔ اور اگر وہ ایسا کرتا تو خدا تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اللہ اپنی تمام گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ ایک ذات پاک ایسی بھی ہے جو جھوٹوں اور سچوں میں فرق کر دکھلا تی ہے اور وہ جو بدی اور بدذاتی کرتا ہے اپنے کئے کی سزا کو پہنچتا ہے اور شریر اپنی شرارت کی وجہ سے پکڑ ا جاتاہے ۔ مگر جبکہ بر خلاف اس کے اس نے اس فیصلہ سے بھی انکار کیاا ور لکھ دیا کہ مجھ کو یہ فیصلہ منظور نہیں تو آج جبکہ حضرت صاحب فوت ہو گئے ہیں اس کا یہ دعوی کرنا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرنے کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں اور یہ میر ی سچائی کی دلیل ہے ، کہاں تک انصاف پر مبنی ہے “۔
۔(تشحیذالاذہان جلد ۳ نمبر ۶ ، ۷ ص ۵۸ ، ص ۵۹ بابت ماہ جون ، جولائی ۱۹۰۸ء زیر عنوان محمود اور محمدی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ باب دوم مولوی اللہ امرتسری)۔


۔(۲)۔ ”یہ جان بوجھ کر حضرت کی وفات کو اس دعا کی بناء پر قرار دیتا ہے کیونکہ باوجود اقرار کرنے کے کہ میں نے انکار کر دیا تھا پھر اپنی سچائی ظاہر کرتا ہے ۔ کیا یہ اتنی بات سمجھنے سے بھی قاصرہے کہ اس مباہلہ یا دعا کی ضرورت تو سچے اور جھوٹے کے فیصلہ کے لئے تھی“۔
(ایضا ص۶۳)


۔(۳)۔” اس وقت تو سچائی کے رعب میں آکر اس نے حیلہ بازی سے اپنا سر عذا ب الٰہی کے نیچے سے نکا لنا چاہا ۔ مگر جب کہ اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بد ل گیا تو اس نے اس منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دوہرانا شروع کر دیا“ ۔
(ایضا ص ۶۴)
مندرجہ بالا تینوں اقتباسات سے صاف طور پر عیاں ہے کہ حضر ت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے اشتہار ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء کو مسودہ اور دعائے مباہلہ ہی قرار دیا ہے اور ثناء اللہ کے انکار کو انکار مباہلہ کے لقب سے موسوم کیا ہے ۔ پس ثناء اللہ کا یہ کہنا کہ حضرت ؑ نے اس کو دعائے مباہلہ قرار نہیں دیا سر تاسر دھوکہ ہے ۔


چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے حافظ محمد حسن مرحوم اہل حدیث لاہور کے مطالبہ کے جواب میں مندرجہ ذیل حلفی بیان دیا:۔
۔”میں خدا کو حاضر ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں کہ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقا بلہ پر اس اعلان کے مطابق آتے جو آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے خلاف ۱۹۰۷ء میں کیا تھا تو وہ ضرور ہلاک ہوتے اور مجھے یہ یقین ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو میں نے مضمون لکھا تھا اس میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کے متعلق جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا تھا وہ دعا مباہلہ تھی پس چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کے مقابل پر دعا نہیں کی بلکہ اس کے مطابق فیصلہ چاہنے سے انکار کردیا وہ مباہلہ کی صورت میں تبدیل نہ ہوئی اور مولوی صاحب عذاب سے ایک مدت کے لئے بچ گئے میری اس تحریر کے شاہد میری کتاب ”صاقوں کی روشنی“ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی (ایڈیشن اول ۲ جولائی ۱۹۰۸ شائع شدہ) کے یہ فقرات ہیں:۔
۔ ”مگر جب کہ اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بدل گیا تو اس نے منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دہرانا شروع کردیا“۔ نیز” اگر وہ ایسا کرتا تو خداوند تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اللہ اپنی گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا“۔
(صادقوں کی روشنی ص۳۰)
غرض میرا یہ ہمیشہ سے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا دعا مباہلہ تھی لیکن بوجہ اس کے کہ مولوی صاحب نے اس کے قبول کرنے سے انکار کیا وہ دعا مباہلہ نہیں تھی اور اللہ تعالیٰ نے عذاب کے طریق کو بدل دیا “۔
خاکسار مرزامحمود احمد
16.3.1931






جملہ خبریہ
مولوی ثناء اللہ صاحب کہا کرتے ہیں کہ ”آخری فیصلہ“۔
(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ ص۵۷۹ از الشرکة الاسلامیة )
کے اشتہار میں سب جملے خبریہ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اشتہار بطور پیشگوئی کے ہے۔
نیز حضرت کا الہام ہے اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
(الہام مورخہ ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ )
(تذکرہ ص ۸۱ ایڈیشن سوم۱۹۴۹ از الشرکة الاسلامیة )
(مطبوعہ بدر جلد ۶ نمبر ۱۶ ،۱۸ اپریل ۱۹۰۷ ص ۳)
(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱۳ ۱۷اپریل ۱۹۰۷ ص ۲)


۔(۱) اس کا جواب یہ ہے جب حضرت نے اس میں صاف طور پر لکھ دیا ہے کہ ’’ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں محض دعا کے طور پر میں نے فیصلہ چاہا ہے“۔
پھر اس کو کس طرح پیشگوئی قرار دیا جاسکتا ہے؟
پھر ”دعا“ کو”جملہ خبریہ“ قرار دینا بھی ثناء اللہ جیسے”عالم“ کے سوا اور کسی کا کام نہیں کیونکہ”دعا“ کبھی جملہ خبریہ نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہمیشہ ”جملہ انشائیہ“ہوتا ہے۔


۔(۲)۔ حضرت کا الہام اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ…… اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ اس دعا کے متعلق ہے تو پھر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ جیسا کہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ دعائے مباہلہ تھی جس کا نتیجہ اس صورت میں نکلنا تھا کہ فریقین اس پر متفق ہوجاتے اور اس کی منظوری کے معنی یہی ہوسکتے ہیں کہ اگر فریق ثانی نے اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیا تو یقینا یقینا وہ ہلاک ہوجائے گا۔
جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے نجران کے مفرور عیسائیوں کے متعلق فرمایا کہ ہے:۔ لَمَّا حَالَ الْحَوْلُ عَلَی النَّصَارٰی کُلُّھُمْ حَتّٰی یُھْلِکُوْا
(تفسیر کبیر للامام الفخر الرازی ص۸۵ جلد۸ مصری نیا آیڈیشن ۱۹۳۸ زیرآیت نمبر۶۲ سورة اآل عمران ص ۶۹۹)
گویا آنحضرت ﷺ کی طرف سے جو دعا لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ (آل عمران ۶۲) قرآن مجید میں مذکور ہے اس کو اللہ تعالی نے قبول فرمالیا اور اگر عیسائی ا س طریق فیصلہ کو منظور کرلیتے تو وہ یقینا یقینا ہلا ک ہوجاتے۔




لطیفہ ثناء اللہ:۔ آپ لوگ تو مجھ کو ابو جہل کہا کرتے ہیں خدا نے مرزا صاحب کی دعا کے اثر کو ابو جہل کی خواہش کے مطابق کیوں بدل دیا؟ ابو جہل تو آنحضرت ﷺ سے پہلے مر گیا تھا۔
احمدی:۔اگر یہ محض دعا ہوتی تو نہ ٹلتی ۔وہ دعائے مباہلہ تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سچے کے بالمقابل جھوٹے فریق کی منظوری بھی ضروری ہے( جس کی تفصیل اوپر مذکورہے) لیکن ابو جہل اول نے تو بدعا کی تھی کہ اے اللہ اگر آنحضرت سچے ہیں تو مجھ کو ہلاک کر ۔اس سے وہ ہلاک ہوگیا تم بھی ذرا اسی قسم کی بد دعا کرو ،پھر اگر بچ جاوٴ تو ہم تمہیں ”ابو جہل“ نہیں کہیں گے۔ تم” ابوجہل“ کے لقب پر فخر کیا کرتے ہو ذرا ابوجہل کی مماثلت کو پورا بھی کرو تو بات ہے ۔بدعا کر کے پھر بچ کر یہ ثابت کیوں نہیں کر دیتے کہ درحقیقت تم ابو جہل نہیں ہو؟






ایک اور ثبوت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک مولوی ثناء اللہ اشتہار آخری فیصلہ کو ”دعاء مباہلہ“ اور” مسوہ مباہلہ“ ہی سمجھتا رہا۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے جب ۱۵ اپریل۱۹۰۷ (تاریخ دعا) سے ایک سال کا عرصہ گذر گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے چند دن پہلے اپنے ایک مضمون میں جو مرقع قادیانی میں پہلی جون کو چھپا لکھتا ہے:۔
۔ ”مرزائی جماعت کے جوشیلے ممبرو ! اب کس وقت کے منتظر ہو۔ تمہارے پیر مغاں کی مقررکردہ مباہلہ کی میعاد کا زمانہ تو گذر گیا“۔
(مرقع قادیانی یکم جون۱۹۰۸ص۱۸)
گویا وہ اس اشتہار کو دعا مباہلہ ہی قرار دیتا ہے مگر کہتا ہے کہ دیکھ لو میں ایک سال میں نہیں مرا اور نہ مرزا صاحب فوت ہوئے ۔لہٰذا وہ دعا بے اثر گئی لیکن جب بعد ازاں حضورؑ  فوت ہوگئے تو جھٹ کہنے لگ گیا کہ مباہلہ کے نتیجہ میں مرزا صاحب فوت ہوئے ہیں۔ اس پر جب اسے پکڑا گیا کہ مباہلہ تو اس صورت میں ہوتا کہ تم بھی اس کا اقرار کر کے بددعا کرتے تو (اپنی غلطی محسوس کرتے ہوئے) جھٹ پینترا بدلا ۔اور اب یہ کہتا ہے کہ وہ مباہلہ کی دعا نہیں تھی بلکہ یک طرفہ دعا تھی ۔
سچ ہے جیسا کہ حضرت فرماتے ہیں:۔
بدگمانی نے تمہیں مجنون واندھا کردیا
ورنہ میری صداقت پر براہیں بیشمار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۱ )
( درثمین اردو ص۱۲۰)





No comments:

Post a Comment