Friday 15 June 2012

Allegation about Khatam ul Aulaad and Khatam ul Nabiyyen - Explained

غیر احمدی اعتراض کرتے ہیں کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے لئے ’’خاتم الاولاد ‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور وہاں خود کو اپنے والدین کی آخری اولاد قرار دیا تو احمدی لوگ ’’خاتم النبیین ‘‘ کا مطلب آخری نبی کیوں نہیں لیتے۔ اس کے تین جواب ہیں۔
(۱) حضور علیہ السلام نے یہ بات اردو میں کی ہے عربی میں نہیں۔ ار
دو میں خاتم ختم کرنے والے کو کہتے ہیں۔
(۲) جماعت احمدیہ ’’خاتم النبیین ‘‘ کا ترجمہ نبیوں کی مہر کرتی ہے۔یعنی اب جو بھی نبی بنے گا وہ نبی اکرم ﷺ کی مہر لگ کر بنے گا۔ اس لحاظ سے ’’خاتم الاولاد ‘‘ کا مطلب ہے کہ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدین کی جو نسل چلے گی وہ حضور ؑ سے ہی چلے گی۔ چنانچہ ایک تو یہ کہ آپ کا دوسرا کوئی بھائی بہن زندہ نہ رہا اور جو زندہ رہا یعنی مرزا غلام قادر صاحب وہ بے اولاد فوت ہوئے۔ انہوں نے حضور ؑ کے صاحبزادے مرزا سلطان احمد صاحب کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔
(۳) غیر احمدی معترضین یہ مانتے ہیں کہ عربی میں خاتم اگر ت کی زبر سے لکھا جائے تو اس کا مطلب مہر ہوتا ہے اور اگر ت کی زیر سے لکھا جائے تو اس کا مطلب آخری یا ختم کرنے والا ہوتا ہے۔ اگر ان کا اعتراض یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنی اس عبارت میں لفظ ’’خاتم الاولاد‘‘ عربی میں لکھا ہے تو اس بات کا ان کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہاں خاتم ت کی زبر سے لکھا گیا ہے یا زیر سے۔ ویسے سیاق و سباق بتارہا ہے کہ حضور علیہ السلام خود کو اپنے والدین کی آخری اولاد قرار دے رہے ہیں تو لا محالہ یہاں پر خاتم ت کی زیر سے لکھا گیا ہوگا یا کم از کم اس کو ت کی زیر سے ہی پڑھا جائے گا۔ تو پھر اعتراض کیا باقی رہا؟
حاصل کلام: اگر خاتم الاولاد اور خاتم النبیین ایک ہی طرح کے دو الفاظ مانے جائیں تو سیاق و سباق کے مطابق یہ ماننا پڑے گا کہ خاتم الاولاد میں خاتم ت کی زیر کے ساتھ جبکہ خاتم النبیین میں ت کی زبر کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے
۔

No comments:

Post a Comment